Monday 18 December 2017

غزل

تصوّر کر کے تو دیکھو مجھے تم پاس پاؤگے
جو پیچھے چھوڑ آےُ ہو وہی احساس پاؤگے،

تمہیں تکلیف ہوتی ہے میرے خوابوں کی دستک سے
نگاہِ شوق سے دیکھوگے تو تعبیر پاؤگے۔۔۔۔ ،

تمہاری یاد سے اکثر میں دل کا خون کرتا ہوں
جو تم بھی یاد رکھوگے مجھے تو درد پاؤگے۔۔۔

میں سادہ لوح تھا شاید سمجھ میں آ نہیں پایا
کبھی کوشش ہو فرصت میں یقیناً جان جاؤگے۔۔۔

جلا کر اپنی ہستی کو کبھی پایا تمہیں میں نے
شمع جو تم جلاتے ہو صبح تک بجھ ہی جاؤگے۔۔۔ ،

دلیلیں کھوکھلی خالی،  چلو مانا میری ساری  ،
مگر تم ہی بتا دو یہ مجھے کیا بھول پاؤگے ۔۔؟؟

تکبّر پاس نہ لانا بلندی ہو بھلے جتنی  ،
گھمنڈ ہوگا جہاں تم کو وہیں سے مار کھاؤگے۔۔۔

یہ مقصودِ جہاں شبلی ابھی تم نے نہیں جانا،
تم خود سے روبرو ہوکر حقیقت جان جاؤگے۔۔۔

از: -  شبلی فردوسی۔

Monday 4 December 2017

غزل

خوشی ہمدم اگر ہوتی تو پھر رونے کو کیا ہوتا
اسے گر پا لیا ہوتا تو پھر کھونے کو کیا ہوتا ۔۔۔

وہ مجھ سے دور نہ ہوتے،  میں ان سے دور نہ ہوتا
یہ انہونی نہیں ہوتی تو پھر ہونے کو کیا ہوتا۔۔۔

میں جب جب تھک کے رکتا ہوں تو کاندھے چیخ اٹھتے ہیں،
یہ جیون بوجھ نہ ہوتا تو پھر ڈھونے کو کیا ہوتا۔۔۔

پڑے رہتے یونہی بنجر تمہارے کھیت صدیوں تک ،
میں مٹی میں نہیں ملتا تو پھر بونے کو کیا ہوتا۔۔۔

Thursday 2 November 2017

ایک شعر

دن گزرےگا کیسے ہر دن یہ سوچتا ہوں
پل کی خبر نہیں ہے اور کل کی سوچتا ہوں

انداز بیاں

اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی
جرم اور طرح کے ہیں، سزا اور طرح کی۔۔۔

Friday 14 April 2017

اندازِ بیاں

تجھکو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تجھ پہ کئ بار مر گئے ۔۔۔

اندازِ بیاں

کچھ نفرتوں کی نزر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا،  محبت میں مر گیا۔۔۔

اندازِ بیاں

یہ ورق ورق تیری داستاں،  یہ سبق سبق تیرے تزکرے
میں کروں تو کیسے الگ کروں،  تجھے زندگی کی کتاب سے

اندازِ بیاں

نہیں تم سے کوئی شکایت بس اتنی التجا ہے
جو حال کر گئے ہو،  کبھی دیکھنے مت آنا۔۔۔

اندازِ بیاں

دعا تو دیتا ہے میرا رقیب بھی لیکن
دعا کے عین پر نقطہ لگا کے دیتا ہے

Tuesday 14 February 2017

غزل

دولتِ غم اپنے ہی اوپر ہم نے خوب لٹائ
سارے جہاں میں کوئی نہ ہوگا ہم سا حاتم طائی...

ہم نے کہا تھا پچھتاؤگے جانے کیسی ساعت تھی
چھوٹے منہ سے نکلی ہوئی بھی بات بڑی کہلائ...

فہم و فراست خواب کی باتیں جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے ذرّوں کی بن آئ...

دریا کی گہرائی ناپو موتی ہاتھ لگیں گے
کیا پاؤگے ناپ کے یاروں جزبوں کی گہرائی...

سود و زیاں کے بازاروں میں ڈھونڈھ رہا تھا اپنا مول
بن بہروپ کسی نے قیمت دو کوڑی نہ لگائی...

اپنی ذات میں ڈوبنے والے ٹھہرے اونچے لوگ
سب کا درد بٹانے والے کہلائیں ہرجائ...