Tuesday 13 March 2018

غزل

وہ ہنسنا کھیلنا، اٹکھیلیاں کرنا روانی سے
تھا بچپن خوب تر تیرا میرے جاناں جوانی سے ۔۔

تمہاری آنکھیں نم ہیں، الجھنیں ہیں، ماجرا کیا ہے
کہ چشمِ نم جدا بچپن ہوا ہے نوجوانی سے  ۔۔

کہا تھا ہمسفر ہو تیرے بن نہ رہ سکیں گے ہم ۔۔،
ہوا کیا  ، بھر گیا پھر دل محبت کی کہانی سے۔۔؟؟

شِکن واضح ہیں ماتھے پہ تمہارے، اب پریشاں ہو
تم ہی نے مانگا تھا جبکہ یہ لمحہ زندگانی سے ۔۔

جلے گا گھر مِرا تو آنچ تم پہ بھی تو آئیگی  ۔۔ ،
نہ ہیں کیونکہ جدا نہ ساتھ، تیری مہربانی سے ۔۔

میری خاطر کرو ایک اور زحمت کو گوارا تم ۔۔ ،
وجہ  بتلاؤ  ترکِ تعلق  کا   حق بیانی  سے ۔۔

ہمیشہ کہتا ہوں پر سچ ہی جانو جو بھی کہتا ہوں،
نہیں  ہوگا  بیاں  باطل میری  صدقِ زبانی  سے ۔۔

زہِ قسمت تھے کچھ رہبر جنہوں نے حق بتایا تھا  ،
نہیں  بچ  پایا  پھر  بھی  میں  عشقِ ناگہانی  سے۔۔

مجھے تم سے نہیں کوئی شکایت خود سے ہے شبلی،
کہ میں ہی ہو گیا   بد دل   تمہاری  ہر   نشانی سے

از :-  شبلی فردوسی ۔۔۔