زندگی کی حقیقت تو کچھ بھی نہیں پھر بھی سینے سے اس کو لگائے ہوئے ،
ورنہ جی چاہتا ہے اسے چھوڑ دیں کیوں ہیں بارِ گراں یہ اٹھائے ہوئے ۔۔۔
دیکھیئے آسماں اور دیتا ہے کیا اور دینے سے پہلے یہ لیتا ہے کیا ،
میری جھولی میں جو کچھ ہے سب ہے تیرا ہم تو کب سے کھڑے سر جھکائے ہوئے ۔۔
میں فراقِ شبِ غم کا ایک داغ ہوں، جو بہاروں میں اجڑے میں وہ باغ ہوں،
یہ میرا ظرف ہے جی رہا ہوں ابھی آبروےء سِتمگر بچائے ہوئے ۔۔۔
پارسائی کا دعویٰ جنہوں نے کیا اور کہتے تھے جو خود کو اہلِ وفا،
داغ دامن پہ لیکر کھڑے تھے وہی آستینوں میں خنجر چھپائے ہوئے ۔۔۔
میں گنہگار ہوں یا کہ بدکار ہوں، مجھ کو اقرار ہے میں خطاکار ہوں،
اس لئے میں شریفوں کی دنیا سے دور اپنی دنیا الگ ہوں بسائے ہوئے ۔۔۔
کون ایسا نہ تھا جس نے کچھ نہ کہا پر بہ ایں پابندیء رسمِ وفا،
ایک شبلی خاموش تھا بزم میں قفل اپنی زباں پہ لگائے ہوئے ۔۔۔
از:- شبلی فردوسی۔۔