Friday 30 November 2018

درسِ وفا

پہلے حسن کو سمجھایا تھا آنکھوں سے
اور پھر درسِ وفا دیا یہ باتوں سے ۔۔۔۔

ناداں وہ پھر بھی نہ جب کچھ سمجھ سکا
اِک تصویر دکھائی دل کی نگاہوں سے ۔۔

پوچھا حسن نے عشق میں کیسے کھوتے ہیں
گلے  لگایا  یہ  بتلایا  باہوں  سے ۔۔۔۔

عشق کی شدت بھی ان کو محسوس ہوئی
جب احساس کرایا میں نے سانسوں سے ۔۔

پھر ایسا منظر بھی دیکھا نظروں نے
پوچھتے تھے وہ میرا پتہ جب راہوں سے ۔۔

میری خموشی غفلت نہ تم سمجھوگے
اک اک کو پہچانوں گا میں ناموں سے ۔۔

مجھ کو رہبر نہ جانا ، کوئی بات نہیں
رستہ پوچھا تو کس سے؟ گمراہوں سے ۔۔

سہل نہیں ہے اشک کو پینا، درد سہنا
کیسی سزا ہے پوچھو عشق کے ماروں سے ۔

پیار کو جو دولت سے تولا کرتے ہیں
دنیا الگ ہے میری ایسے یاروں سے ۔۔۔

دل ہو تو جزبات میرے تم سمجھ سکو
پتھر ہو ، کیا بات کروں دیواروں سے ۔۔۔

یونہی نہیں یہ عام ہوئی ہے بےشرمی
تعلیم یہی ملتی ہے اب درسگاہوں سے ۔۔

پیار کے نام سے سودا دل کا کرتے ہیں
اللہ دور رکھے شبلی مکاروں سے ۔۔۔

از :- شبلی فردوسی

Monday 19 November 2018

غزل : خواب میرے

کبھی آؤ تم میرے روبرو اور آکے پھر یہ گلا کرو
کبھی ضد کرو، کبھی منّتیں اور یوں کہو کہ ملا کرو ۔۔

کبھی توڑ دو سبھی بندشیں ، کبھی چھوڑ دو یہ روایتیں
کبھی ہو کرم میرے حال پر ، میرے عشق کا یہ صلہ کرو۔

کبھی ہو جفاؤں کی انتہا ، کبھی سوز سے رہوں جاں بلب
کبھی ٹیس ہو کبھی ہو خلش، میرے زخم کو آبلہ کرو ۔۔

کبھی میرے ساتھ بھی معجزہ کہ میں تنہا ہو کے بھی نہ رہوں ،
میرا ساتھ دیکر سفر میں تم مجھ تنہا کو قافلہ کرو ۔۔۔۔

کبھی مجھ پہ ابرِ بہار ہو ، کبھی چاہتوں کی پھہار ہو ۔۔،
کبھی گلشنوں کو سنوار دو ، کبھی فرصتوں سے ملا کرو ۔۔

کبھی مبتلائے معاشقہ، کبھی آؤ کوچہء عاشقاں میرے دل کو جس سے قرار ہو کوئی ایسا بھی معاملہ کرو۔۔۔

کبھی دردِ دل سے بھی جا ملو ، کبھی سسکیوں کو سنا کرو ۔۔،
گر خوشیوں سے فرصت ملے، کبھی غم کا بھی حوصلہ کرو۔۔۔

کبھی راحتوں سے کرو درگزر ، کبھی ہو کسک تمہیں بےعزر ۔۔،
کبھی ترک ہو آرام بھی اور رنج کا فیصلہ کرو ۔۔۔۔۔

کبھی آنکھوں سے بھی نشہ کرو، کبھی خونِ دل کو پیا کرو۔۔،
کبھی لو مزہ تم سرور کا ، کبھی پی کے خود سے ملا کرو۔۔

کبھی یوں کہو کہ ہو جزا، کبھی بول دو کہ ہو سزا .. کبھی رحمتیں، کبھی زحمتیں، کبھی شبلی سے یہ گلہ کرو۔۔۔

از : شبلی فردوسی ۔

Saturday 17 November 2018

غزل : ستمگر

محبت کرکے پھر انکار کرنا اور تڑپنا بھی
جنوں خیزی کے عالم میں تیرا رونا، مچلنا بھی ۔۔

بھلا بیٹھا ہے تو شاید شبِ ظلمت کی تنہائی
مجھے تو یاد ہے تیرا بلکنا بھی ، سسکنا بھی ۔۔

یوں اپنی زندگی میں چھوڑ کر سب کو بڑھا آگے
نشے میں گر پڑا ، تو بھولا چلنا بھی سنبھلنا بھی۔۔

ہے فطرت موسموں کی روز ہی تبدیل ہوتے ہیں۔،
تیرا بھی فطری تھا شاید جفا کرنا ، بدلنا بھی ۔۔

کبھی جو یاد تو کرتا شبِ غم کی وہ بیچینی ۔۔،
یقیناً یاد آتا پھر تیرا مجھ میں پگھلنا بھی ۔۔

کبھی ہونٹوں کی سرخی اور کبھی آنکھوں میں ویرانی
وہ تیری الجھنیں ، اقرار کرنا پھر مکرنا بھی ۔۔

غضب ہیں ناز تیرے، کیا عجب انداز ہے تیرا ۔۔،
وہ شکوہ ہجر کا اس پہ تیرا سجنا سنورنا بھی ۔۔

تھا میں ہی حوصلہ ، ہمّت تیری انجان راہوں پر ۔۔،
کبھی رکتے تجھے دیکھا ، کبھی ڈرنا سہمنا بھی ۔۔

میں تنہا ہی چلا ہوں ننگے پاؤں شعلوں پہ جلکر
ہے جل کر آگ سے سیکھا بھڑکنا بھی، دہکنا بھی ۔

ہوں تجھ سے بےخبر گویا کہ خود سے بھی ہوا غافل
نظر انداز کرکے تجھ کو بھولا دل دھڑکنا بھی ۔۔۔

کبھی آیا نہ تھا یوں شبلی کو پہلے نشہ کرنا
تیرے جانے سے آیا مجھ کو پینا بھی، بہکنا بھی ۔۔

از :- شبلی فردوسی

Friday 9 November 2018

علامہ اقبال ایک دن دہلی میں ۔۔۔

علامہ اقبال : ایک دن دہلی میں ۔۔

بقلم : شبلی فردوسی 

9 نومبر 2017 ، شاہیں باغ (اوکھلا)نئ دہلی ۔۔

آج بتاریخ 9 نومبر یومِ پیدائش حضرت حکیم الامت، شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر ایک اقتباس حاضرِ خدمت ہے ، جس کا عنوان ہے " علامہ اقبال ایک دن دہلی میں " ۔ 

یہ علامہ کے یورپ کے سفر پر روانگی سے قبل کی روداد ہے، ان کے خطوط کے مطالعے سے انکی زندگی کے یہ ناقابلِ فراموش پہلو سامنے آئے ہیں، جس سے علامہ کی صوفیائے کرام سے عقیدت و محبت کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔۔۔ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔

علامہ اقبال جب1905میں یکم ستمبر کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لاہور سے یورپ روانہ ہوئے،تو2ستمبر کو دہلی پہنچےاورحضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دی ۔یہاں36 اشعارپر مشتمل اپنی نظم’ التجائے مسافر‘سنائی۔

علامہ کو شہیدوں اور صوفیائے کرام سے اتنی عقیدت تھی کہ انہوں نے ٹیپو سلطان کے مزار پر یہ بات کہی تھی ؛قبر زندگی رکھتی ہے بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔‘اس کا اندازہ محبوب الہی ٰحضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر ان کی نظم ’التجائے مسافر‘ کے اس حصے سے بھی لگا سکتے ہیں؛

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا

بڑی جناب تیری ،فیض عام ہے تیرا

تری لحد کی زیارت ہے زندگی د ل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں؛’دودفعہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی ؛

ہند کا داتا ہے تو ،تیرا بڑا دربار ہے

کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار گوہر بار سے

علامہ کبھی کبھار دہلی آتے تھے ، جس میں ایک وجہ حکیم نابینا سے علاج و معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔

یہاں شروع میں 1905کے جس مختصر قیام کا ذکر کیا گیا ،اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ علامہ مرزا غالب کے مزار پر بھی گئے تھے ۔مرزا سے ان کی عقیدت کا اندازہ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ مرزا غالب اور عبدالقادر کا نام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے مجھے یہ سکھایا کہ مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں ۔‘

"علامہ اقبال غالب کے مزار پر": مجھ سے ضبط نہ ہوسکا آنکھیں پرنم ہوگئیں…

مرزا غالب کی طرح ہی علامہ کو آم بہت پسند تھے ،لکھتے ہیں ؛

آموں کی کشش ،کششِ علم سے کچھ کم نہیں ،یہ بات بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے ،جس سے مجھے محبت ہے ‘۔

اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں ،لیکن یہاں دہلی کی روداد علامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے ؛

دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا ۔ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا ۔اللہ اللہ ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے ۔بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے ۔خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں ۔شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہیں ہوتا ہے۔خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے ،جس پر خاک دہلی ہمیشہ ناز کرے گی ۔حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا،اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر ۔۔۔۔۔دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی ۔۔۔۔۔۔کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں ،بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:

وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا ،آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔

اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامن دل کو کھینچتے ہیں ،مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا ۔شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا ،دارشکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرتناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا،جو صفحہ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔3ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہوکر بمبئی کو روانہ ہوااور 4ستمبر کو خدا خدا کرکے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔