Tuesday 20 December 2016

غزل

دہلا ہے سینہ دشت کا طوفان کے ڈر سے
کیا جانے کہ وہ اٹھنا پڑے اب کے کدھر سے

اِک بات تھی جو دل میں رہی' لب پہ نہ آئ
راضی نہ تھے وہ سننے کو ' کہنے کو ہم ترسے

بنجر پڑی زمین کو قطروں کی آس تھی
دل کی یہ التجا تھی کہ دو بوند بھی برسے

کتنی مشقتیں ہیں تیری راہِ شوق میں
جو جاننا ہو پوچھ یہ خورشید و قمر سے

مومن ہے تو ہو خوفِ جہاں تجھ کو بھلا کیا
خوفِ خدا کو رکھ ' نہ ڈر فرعون و شِمر سے

یہ یاد رکھ کہ سجدہ گاہِ شوق ہے تیرا
ہر معجزہ پھر دیکھے گا مومن کی نظر سے

اللہ کی رضا ہو تیری عمر کا حصول
غافل نہ ہو ' قریب ہے تو اپنی قبر سے

صحراوُں کے ہر موج کی حد سے نکل شبلی
بے باک ہے تو پاک ہے ہر خوف و خطر سے.. 

از:- شبلی فردوسی...

Saturday 17 December 2016

غزل

پہلو میں بھی آوُ کبھی کوئ بات بتائیں
احوال سنیں تم سے ' حال اپنا سنائیں

مانا کہ روز و شب میں تم مشغول بہت ہو
دو پل کو بھی آوُ کبھی ' ہم تم کو منائیں

بیتاب ہوں ' بیچین ہوں ' یہ کیسے بتاوُں
گلے میں گھٹ نہ جائیں کہیں میری صدائیں

بھولو پرانی باتوں کو ' باتیں وفا کی ہوں
انسان ہوں' انسان سے ہوتی ہیں خطائیں

تنہائ سے اکتایا ہوں ' سہما ہوا ہوں میں
آ جاوُ اب کہ لمبی ہوئ میری سزائیں

چھوڑو بھی نفرتوں کو نیُ ابتدا کرو
سب مل کے کویُ سیج ہم الفت کا سجائیں

ہر روز کی خواہش کا یہ عنوان ہے میرا
کوئ گیت سنیں تم سے ' غزل اپنی سنائیں

میں منتظر ہوں وعدہُ دیدار کا اب تک
شبلی یہ نہیں جانتا کہ کیا ہیں جفائیں

از:- شبلی فردوسی...

Tuesday 13 December 2016

غزل

آنکھوں سے یا صورت سے کہاں دل کا پتا چلتا ہے
ہوا کے سنگ چلوگے تو زمانے کا پتا چلتا ہے

عشق ہے حسین مگر حسن ہے پر فریب
رسم و رواج بڑھنے سے الفت کا پتا چلتا ہے

تھا مجھکو بھی یہ ناز بڑے یار ہیں میرے
وقتِ بد آنے سے تو اپنوں کا پتا چلتا ہے

کافی ہے اک نگاہ بس شناخت کے لےُ
مومن کے ہر اشارے سے ایماں کا پتا چلتا ہے

نعرے ' ہجوم اور یہ جملے بے سود ہیں
خاموش رہ!  سکوت سے طوفاں کا پتا چلتا ہے

گھبراوُگے یا پھر الجھوگے تو گزروگے کیسے
مرحلوں کے بعد تو منزل کا پتا چلتا ہے

ہو فرق قول و فعل کا تو علم نہیں ہے
جو عِلم با عمل ہو تو عالم کا پتا چلتا ہے

مشکل ہے زندگی یہ مگر اتنا جان رکھ
شبلی اندھیری رات سے مقصد کا پتا چلتا ہے

از:- شبلی فردوسی

Friday 2 December 2016

غزل

اےُ ساغر اور مینا ذرا ان سے جا کے کہنا
روٹھا نہ کریں مجھ سے ' ساقی نے قسم دی ہے

رہتے ہیں موج میں وہ اپنے ہی رنگ و بو میں
دیوانہ انکا گل ہے شیدائ ہر کلی ہے

چرچے ہیں تبسّم کے ' مشہور انکا کاکل
زخمی بھی مضطرب ہیں ' زخموں نے دوا کی ہے

اف!  حسن کی شوخی اور اندازِ سخن ہاےُ
دیوانگی کی حد ہے ' چشمِ براہ گلی ہے

زلفوں کی گھٹا میں ہے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
بنجر زمین کی اب قطروں نے خبر لی ہے

تاریک شب کے راہی ' سحر کی تلاش میں ہیں
ہمّت قمر کی ٹوٹی ' جگنو نے مدد کی ہے

خورشید سے بھی روشن ' روشن جمال انکا
ہیں دلربا وہ شبلی' دل نے یہ صدا دی ہے...

از :- شبلی فردوسی.

Wednesday 30 November 2016

غزل

ہر طرز میرا ' الفاظ میرے ' جزبات میرے تجھ سے
ہر سوز میرا اور ساز میرے ' خیالات میرے تجھ سے

کیسے میں کہوں کہ بھول گیا ' تجھکو تو پتا ہے حال میرا
ہر صبح میری اور شام میری ' دن رات میرے تجھ سے

ہر آہٹ پہ بس تو ہی تو ' جب بھی میں تنہا ہوتا ہوں
میرے نغموں کی آواز ہے تو ' لمحات میرے تجھ سے

جب جب بھی ذکرِ وفا ہوئ ' آنکھوں میں تیری وضع ہوئ
ہر سانس میری ' احساس میرا ' اِثبات میرے تجھ سے

ہر خطا کو میری معاف کیا اور الفت کا اظہار کیا
ماں کی مامتا میں جھلک تیری 'خطبات میرے تجھ سے

تیری یاد سے دل کو راحت ہے اور ساتھ میں تیری رحمت ہے
اَعلَم تو ہے اور اعلیٰ تو ' ذرّات میرے تجھ سے

کبھی قربت دی ' کبھی دور کیا ' انداز تیرا یہ تو جانے
پر وفا تھی یہ یا جفا ہوئ ' سوالات میرے تجھ سے

ہر ساےُ میں تصویر تیری اور راز میرے سب تیرے ازیں
یہ رشتہ تیرا یا شبلی کا ' شبہات میرے تجھ سے...

از:- شبلی فردوسی.

Thursday 24 November 2016

Ghazal

http://wp.me/p86FIP-f

غزل...

حیرت کی بات ہے کہ مجھے جانتے نہیں؛
وہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ پہچانتے نہیں...

آنکھیں بیان کرتی ہیں سب راز دلوں کے؛
یہ  بات  جدا   ہے  کہ   لب    بولتے   نہیں...

کیوں آتی ہے ہنسی  '  غمِ  غیر  پہ   خدا  ؛
گھر  جسکا  جل  گیا  ہو  وہ  ہنستے  نہیں...

رکتے ' ٹھہرتے وہ ہیں منزل ہو پاس جن کے؛
پرواز  جنکو  کرنا  ہو  وہ  سوچتے  نہیں...

ہر  روز  آیا  سورج  لیکر  نئ  کرن  کو     ؛
کیوں  نفرتوں  کے  بادل  پھر  چھٹتے  نہیں...

الفت کا دور تھا جو وہ بیت گیا  شاید    ؛
رستے  بدلتے  ہیں  اب '  وہ  دیکھتے   نہیں...

مظلوموں کی ہیں راتیں ' آنسو بھرا شب انکا؛
بکھرے  ہوں  خواب  جنکے ' وہ  سوتے  نہیں...

اس  دور  کا  سناّٹا  کیوں  چیخ  رہا  شبلی  ؛
کیا   جانتے   نہیں   ہو '  کیا   سنتے   نہیں...  

از :-  شبلی فردوسی..

Sunday 20 November 2016

بےوقوفی...

جفاےُ جم میں وفا کا شمار کرتے ہیں؛
خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کرتے ہیں..
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

جنہوں نے جانا نہیں حالِ دلِ درد مرا؛
ہم آج بھی انہیں لوگوں سے پیار کرتے ہیں
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں....

جو سر سے پیر تلک جھوٹ کے پیمبر ہیں؛
انہیں کی بات کا ہم اعتبار کرتے ہیں....
یہ بے وقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں....

یہ جانتے ہیں کہ آئںیگے نا پلٹ کر وہ؛
انہیں کا آج تلک انتظار کرتے ہیں...  
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

وہ بےقراری کہ جس نے مجھے قرار ریا؛
اسی قرار کو ہم بے قرار کرتے ہیں....
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

از :- شبلی فردوسی....

Thursday 17 November 2016

نظم :- دنیا

جو بھی یہاں پہ آیا؛  آیا ' چلا گیا
دھوپ باقی رہ گئی ' سایا چلا گیا

کتنی ہی کوششوں سے' کتنی مشقتوں سے؛
اس زندگی میں جو بھی کمایا ' چلا گیا

دیتا رہا فریبِ ملاقات وہ برسوں؛
آنے کو بھی وہ کہ کے نہ آیا ' چلا گیا

ہستی جلا جلا کے دیا روشنی جسے؛
اسنے مرا چراغ بجھایا ' چلا گیا

میری سنی کسی نے نہیں جو مجھے ملا؛
دکھڑے پہ دکھڑا اپنا سنایا ' چلا گیا

از :- شبلی فردوسی...

Sunday 13 November 2016