Sunday 21 June 2020

بہ ‏شکریہ ‏آئینہ ‏: ‏دی ‏مِرر ‏

بہ شکریہ آئینہ دی مرر https://www.aainathemirror.in

علم ‏التصوّف ‏: ‏الله ‏اور بندے کے ‏روحانی ‏تعلق ‏کی ‏بُنیاد ‏

عِلم التصوّف : الله اور بندے کے روحانی تعلق کی بنیاد ۔۔ 

یہاں اس بات کا موقع نہیں کہ یہ بحث کی جائے کہ تصوّف کا ہندی ، ایرانی ، یونانی ، عیسائی یا اسلامی پسِ منظر کیا ہے ، تاریخِ اسلام میں تصوّف کی حیثیت ایک ایسے مستقل ادارے کی رہی ہے جس کے اثرات ہمہ گیر اور مختلف النوع رہے ہیں ، آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک مغرب کے بعض مستند عالموں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام میں تصوّف کی ابتدا محض عجمی و عیسائی اثرات کے تحت ہوئی اور ان کا یہ نظریہ خاصا مقبول بھی ہوا لیکن در حقیقت صورتحال ایسی نہ تھی جیسی کہ ان لوگوں نے پیش کی تھی ۔ 

اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اس امر میں کسی کو شک نہیں رہا کہ اسلام میں احسان اور تزکیہ نفس کا جو قوی عنصر ہے ، جس پر خدا اور بندے کے مابین اس گہرے روحانی تعلق کی بنیاد ہے جو مزہب کا مقصود اصلی ہے ، اسی پر اسلامی تصوف کی اصلی عمارت قائم ہے ۔ اس عمارت میں بعد میں جو توسیع ہوئی اور بعض متوسطین و متاخرینِ صوفیاء کے عہد میں اس میں جو نقش و نگار بنائے گئے ان میں سے بعض چیزیں اسلامی تصوّف سے میل نہیں کھاتیں ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصوّف کی بنیاد قرآن کی تعلیمات ، احادیثِ نبویؐ ، صحابہؓ کی پاک سیرت و زندگی ، تابعین اور تبع تابعین (رحمتہ اللہ عنہم اجمعین) کی پاک سیرت پر ہے ۔ اس سلسلے میں خود لفظِ صوفی کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن اب مشرق اور مغرب دونوں جگہ اس امر پر اتفاق ہو گیا ہے کہ لفظ "صوفی" صوف (پشمینہ) سے ہے ۔

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' جو ابو نصر سرّاج کی تالیف ہے، اس موضوع پر قدیم ترین کتاب ہے ، اس کتاب میں سراج نے لکھا ہے کہ : 

" کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ اصحابِ حدیث کی نسبت حدیث اور فُقہا کی نسبت فِقہہ سے ہے ، اسی طرح زہاد کی نسبت زہد سے ، متوکلین کی نسبت توکّل سے اور صابرین کی نسبت صبر سے ہے ، لیکن صوفیہ کی نسبت کس سے ہے ؟؟ 
جواب ملا کہ صوفیہ کی نسبت نہ کسی علم سے ہے اور نہ کسی حال سے ، وہ در حقیقت تمام عُلوم کے معدن اور تمام نیک اعمال و اخلاق کے مخزن ہیں ۔ وہ مسلسل ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی غالب خصوصیات لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے ، اس لئے انہیں ان کے احوال میں کسی ایک حال سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ۔ 
(لفظ صوفی) کی نسبت صوف سے ہے کہ انبیاء ، اولیاء اور اصفیا کا لباس تھا ۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے خاص احباب کی ایک جماعت کو ان کے لباس کی طرف منسوب فرمایا ہے اور انہیں حواری فرمایا ہے :  ( وَاِذْ قالَ الحوّارَیّونْ ۔۔۔۔۔ )
اور حوّاری کے معنی سفید لباس والوں کے ہیں ۔ 
پوچھنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانے میں کسی صوفی لفظ کا ذکر نہیں ملتا ۔۔۔۔
جواب دیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر یہ لفظ نہیں ملتا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابی سے بڑھکر کوئی اور محترم اور معزز لفظ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کہ اہلِ بغداد نے اس لفظ کو اختیار کیا غلط ہے ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اور سفیان ثوری ؒ کے عہد میں بھی یہ لفظ رائج تھا ۔ حسن بصری ؒ  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک صوفی کو (حرم میں) طواف کرتے دیکھا ، انہوں نے اسے کوئی چیز دینی چاہی پر اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔ سفیان ثوری ؒ  سے روایت ہے کہ اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو مجھے ریاکاری کی باریکیاں نہ معلوم ہو سکتیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بھی لوگ اس لفظ سے آشنا تھے " 

اہلِ علم حضرات نے لکھا ہے کہ مومنین میں ان اولوٰالعلم کا مرتبہ جو قائمین باالقسط ہیں ، بلند و برتر ہے اور یہی لوگ انبیاء کے جاں نشین ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب اللہ کا سر رشتہ مضبوطی سے تھامنے والے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں پورے طور پر کوشاں اور صحابہؓ اور تابعین کے نقشِ قدم پر چلنے والے اور اولیاءاللہ متّقین اور صالحین کی راہ اختیار کرنے والے ہیں ۔ 

سراج نے ایسے لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے  : 
1. اصحاب الحدیث 
2. فقہا
3. صوفیہ 

حضراتِ صوفیہ کے معتقدات بھی وہی ہیں جو اصحابِ حدیث اور فُقہا کے ہیں ، انہوں نے ان کے علوم کو قبول کیا اور ان کی تشریحات و مفاہیم کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ بدعت اور نفسانیت ہوتی ۔ صوفیہ کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت ، اطاعت اور اخلاقِ جمیلہ کے سہارے درجاتِ عالیہ اور منازلِ رفیعہ کو طئے کرتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی جو محض عالم ، فقہہ اور اصحابِ حدیث ہیں ۔ صوفیہ کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی اور محارم سے اجتناب کے علاوہ ہر اس لایعنی چیز کو ترک اور ہر اس تعلق کو منقطع کرتے ہیں ،جو ان کے اور انکے مطلوب و مقصود کے مابین حائل ہوتا ہے اور ان کا مطلوب و مقصود اللہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے آداب و احوال مختلف ہوتے ہیں ،مثلاً ان میں قناعت ہوتی ہے اور کھانے پینے، لباس و دنیاداری کے دوسرے معاملات میں نہایت اختصار سے کام لیتے ہیں ۔ بس وہ اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں جتنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے غنا کے بجائے فقر اختیار کرتے ہیں، جاہ و مرتبے اور قوت و اقتدار سے منھ پھیر لیتے ہیں ۔ خلق پر شفقت کرتے ہیں ، ہر چھوٹے بڑے سے تواضع و انکسار سے پیش آتے ہیں ۔ ایثار سے کام لیتے ہیں، اپنی طاعت و عبادت میں مخلص ہوتے ہیں ، نیکی اور خیر کی راہ میں تیزگام ہوتے ہیں ۔ توجہ الی اللہ کے لئے ہمہ وقت بیچین رہتے ہیں ، قضائے الٰہی پر راضی رہتے ہیں ، مجاہدہ کی مداوات اور نفس کی مخالفت پر جمے رہتے ہیں ۔ 

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت ابوبکر شبلی ؒ نے فرمایا پرہیزگاری تین طرح کی ہوتی ہے : 

1. زبان سے 
2. ارکان سے (اعضاء و جوارح) 
3. دل سے 

زبان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ جس امر سے کچھ تعلق نہ ہو اس میں انسان خاموش رہے ۔ ارکان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ شبہات چھوڑ دئے جائیں اور جن چیزوں سے شک پیدا ہوتا ہے انہیں چھوڑ کر اس چیز کی طرف رجوع کیا جائے جس میں شک و شبہہ نہیں اور دل کی پرہیزگاری یہ ہے کہ ذلیل و حقیر ارادوں اور برے خیالات سے پیچھا چھڑا لیا جائے ۔ ایک موقع پر شبلی ؒ نے فرمایا کہ صوفی اس وقت صوفی ہوتا ہے جب ساری خلقت کو اپنی عیال خیال کرے یعنی اپنے آپ کو سب کا کفیل اور بوجھ اٹھانے والا سمجھے ۔ 

شریعت ، طریقت اور حقیقت کا فرق اس طرح واضح کیا : شریعت یہ ہے کہ تو خدائے عزّوجل کی عبادت کرے ، طریقت یہ ہے کہ تجھے اس کی طلب ہو اور حقیقت یہ ہے کہ تو اس کو دیکھے ۔ 

حضرت شبلی ؒ کے یہ اقوال تصوّف کی بنیادی باتیں ہیں : 

1. آزادی دل کی آزادی ہے اور بس ۔
2. مُحبّ اگر خاموش ہوا اور عارف اگر نہ خاموش ہوا تو ہلاک ہوا ۔ 
3. شکم منعم کی طرف دیکھنے کا نام ہے نا کہ نعمت کی طرف ۔
4. دل ، دنیا اور آخرت دونوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیا محنت کا گھر ہے اور آخرت نعمت کا جبکہ دل معرفت کا گھر ہے ۔ 
5. ہزار ہا سال کی عبادت میں ایک وقت کی غفلت بھی رسوائی ہے ۔
6. عبادت کی زبان علم ہے اور اشارت کی زبان معرفت ہے ۔ 

سماع کے بارے میں شبلی ؒ کا بھی وہی خیال تھا جو آپکے مُرشد حضرت جنید بغدادی ؒ  کا تھا کہ سماع کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے : زمان ، مکان اور اخوان (دوست). 

حضرت جنید ؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس نے تکلفاً سماع کو چاہا اس کے لئے یہ فتنہ ہوگا مگر جسے خود بخود یہ حاصل ہوا اس کے لئے سماع راحت ہے ۔ 

جناب شبلی ؒ سے سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ اس کا فتنہ ظاہر ہے اور باطن عبرت یعنی جس شخص کو رموزِ باطن کی معرفت حاصل ہو وہی اس کے ذریعے عبرت حاصل کر سکتا ہے ورنہ وہ مصیبت میں پڑ جائے گا ۔ 
کسی نے شبلی ؒ سے عرض کیا کہ بعض لوگ سماع سنتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ کچھ نہیں سمجھتے انہیں حال آ جاتا ہے ایسے لوگوں کی نسبت آپکی کیا رائے ہے؟؟  
جواب میں آپنے چند اشعار پڑھے جن سے حقیقتِ حال واضح تھی ۔ ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے : 
" ہمارے صحن میں ایک کبوتر کی آواز آ رہی ہے جس میں درد اور کسک ہے ، وہ بھی کسی کی شکوہ سنج ہے لیکن میں سمجھ نہیں پاتا ، میں بھی کسی کی شکایت کرتا ہوں جسے وہ سمجھ نہیں پاتی مگر دونوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ہم عشق کے مارے ہوئے ہیں ، وہ محبت کے درد سے روئی اور اس سے میرے غم میں حرکت پیدا ہو گئی " ۔۔۔۔ 

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صوفیہ کا خاص موضوعِ فکر و بحث " توحید " تھا اور وہ عام طور پر اپنے معاصرین میں " اربابِ توحید " کے نام سے مشہور تھے ۔ ایک صوفی کے مزہبی تجربے میں یہ احساس بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان ایک عظیم فاصلہ ہے اور یہ احساس اس کے شعور و ادراک پر چھایا رہتا ہے ، صوفیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس فاصلے کو عبور کر جائیں اور در حقیقت اسی کا نام تصوّف ہے ۔ فکر ، ریاضت اور زندگی کے طریقوں اور اظہارِ بیان میں صوفیہ کے مابین اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے لیکن سب کا مقصود ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں قُربِ الہیٰ حاصل ہو جائے یعنی وہ فاصلہ کم سے کم یا دور ہو جائے جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہے ۔ 

حضرت جنید بغدادی ؒ نے تصوّف کی ماہئیت کے بارے میں جو کچھ کہا اس میں یہ بھی ہے کہ " انسان خدا کے ساتھ اس طرح رہے کہ اس کا پھر کسی دوسری ہستی سے کوئی تعلق باقی نہ رہے اور یہ کہ تصوّف ایک سعی مسلسل ہے جس میں انسان ہمیشہ مشغول رہتا ہے " ۔۔۔۔ 

پوچھا گیا کہ یہ حق کی صفت ہے یا خلق کی؟؟ جواب ملا کہ " اصل کے اعتبار سے تو یہ حق کی صفت ہے لیکن حالتِ انعکاس میں یہ خلق کی صفت بن جاتی ہے یعنی انسان کی تمام صفات دراصل عکسی صفات ہیں "  ۔ ہجویری نے اس بات کی وضاحت یوں کی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ توحید کی حالت میں انسانی صفات باقی نہیں رہتیں کیونکہ انہیں بقا نہیں ، محض عکس ہیں ۔ 

ایک سچے صوفی ، زاہد اور عبادت گزار کی یہ تمنا کہ وہ اپنے دنیوی اور غیر حقیقی وجود کو خیرباد کہہ کر اپنی ابتدائی حالت کی طرف لوٹ جائے ، تصوف کی روح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ایسے خاص اور عبادت گزار بندوں کا حال ہمیں معلوم ہے جو اپنی انفرادیت کھو کر توحیدِ حقیقی کے اسرار کی لذّت سے بہرہ یاب تھے لیکن وہ یہ چیز نہیں کہ بندہ محض اپنی کوشش سے حاصل کر لے ، یہ چیز خدا کی نصرت و تائید ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ یہ گویا انعام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں پر ..... 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے  ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ )  اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں ....... 

محبوب الاولیاء مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی سملوی رحمتہ اللہ علیہ " تصوّف و احسان " کی حقیقت پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالتے ہیں ، چنانچہ آپکا ارشاد ہے : 

" تصوّف سراپا عمل ہے،  تصوّف اتباع نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام ہے " 

پھر فرماتے ہیں : 

" تصوّف میں منازل و مقامات اور فنا و بقا کی اصطلاح نظری نہیں بلکہ عملی ہے ، اسی طرح ذکر ، شغل و مراقبہ بھی صرف ذہنی چیز نہیں بلکہ ساراپا عمل ہے " 

تصوف کیا ہے؟؟  عموماً لوگ اسے ہندوانہ جوگ یا نصرانی رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں : 

" تصوّف نہ ہندوانہ جوگ ہے اور نہ نصرانی رہبانیت ۔۔۔۔۔۔ تصوّف ماسویٰ اللہ سے دلی تعلق کو قطع کر کے خدا کی طرف یکسو کر دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔ تصوّف مادی نعمتوں کا ترک کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ان کا صحیح استعمال بتاتا ہے ۔ حقیقت میں اسلامی تصوف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوری و معنوی پیروی کا نام ہے " ۔۔۔۔۔

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں : 

" شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایمان بالله کا نام شریعت ہے اور اتباع نبوی کا نام طریقت " 
اس کی وضاحت میں آپ آگے لکھتے ہیں : 

" الغرض ارشاداتِ نبویؐ کا نام شریعت ہے ، افعالِ نبویؐ کا نام طریقت اور احوالِ نبویؐ کا نام حقیقت ہے ۔ پس تصوّف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی پیروی کا نام ہے اور بس " ۔۔۔۔ 

اسی طرح " آغازِ طریقت " کے حوالے سے آپکا ارشاد ہے کہ : 

" آغازِ طریقت یہ ہے کہ شریعت کی رخصتوں اور آسانیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور شریعت کے احسن اور مستحبات حکموں کو اپنے اوپر لازم کیا جائے " ۔۔۔۔ 

" سلوک کی حقیقت " کی نشاندہی اس طرح فرماتے ہیں : 

" سلوکِ طریقت سے مراد تہزیب الاخلاق ہے ، طالب کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بری اور خسیسس صفتوں : بخل ، حسد ، غرور ، خود بینی ، ریا ، مکر وغیرہ کو دور کر کے اچھے اوصاف : سخاوت ، اخلاص ، عجز ، تواضع وغیرہ کو اپنے اندر پیدا کرے تاکہ " وصول " کی استطاعت میسر آئے " ۔۔۔۔۔۔۔ 

اسی حوالے سے اپنے ایک مخلص عزیز کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں : 

" تلاوت قرآن مجید سے بڑھکر کوئی وظیفہ نہیں ، درود سے بڑھکر کوئی دعا نہیں ، لا اله الا الله سے بڑھکر کوئی ذکر نہیں اور الله عزوجل کو حاضر و ناظر جاننے سے بڑھ کر کوئی مراقبہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی عبادت کی توفیق بخشے اور اتباع سنت کی ہمت عطا فرمائے "۔۔۔۔۔   اٰمین ۔ 

آج کے دور میں تصوّف و احسان اور سلوک کا موضوع بڑا نازک بن گیا ہے ، اس کی نِت نئی تعبیریں ہیں جو مختلف حضرات مختلف الفاظ ، نقطہ نظر اور اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک ایسا گروہ موجود ہے جس نے تمام مقاصدِ دنیوی سے قطعِ نظر کر کے اپنا نصب العین محض یادِ خدا اور ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا ، سلوک و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا ، یہی گروہ رفتہ رفتہ گروہِ صوفیہ کہلایا اور اس کے مسلک کا نام " مسلکِ تصوّف پڑ گیا " ... 

موجودہ دور میں تصوف کی مسخ شدہ شکل ، جو عام طور پر نظر آتی ہے وہ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کا ایک معجونِ مرکب بن گئی ہے ۔۔۔ جس کے اسلامی اجزاء غیر اسلامی افکار و نظریات کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئے ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تصوّف وہ ہے جو خود حضرت سرورِ کائنات صلی الله عليه وسلم کا تھا ، جو حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا تھا ، جو حضرت سلمان فارسی ؓ اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کا تھا اور جس کی تعلیم حضرت جنید بغدادی ؒ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ، شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ  ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء دہلوی ؒ اور مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ؒ نے دی ۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کی طرح صلحاء اور اخیارامت کی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ۔ ان اہلِ دل بزرگوں کے حالات کو جاننا اور ان کی حقیقی اسلامی تعلیمات کی واقفیت بہم پہنچانا ، ہماری سعادت کا باعث ہے ۔۔۔۔۔۔  



بحوالہ : 

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' از شیخ ابو نصر سراج ( م 378 ھ)  (باب 1 ، 9 ، 10 ، 11 ) 

حضرت جنید بغدادی ؒ  سیرت و شخصیت مع اردو ترجمہ ' معالی الہمم ' از ضیاء الحسن فاروقی ۔ 

رسالہء قشیریہ باب 49 بعنوان " سماع " ۔۔ 

صحیح بخاری ( کتاب الرقاق ، باب التواضع ) صحیح حدیث 6502 ۔۔ 

حیاتِ دوام - سوانح مصلح امت محبوب الاولیاء حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی رحمتہ اللہ علیہ از طیّب عثمانی ندوی ۔ ( بابِ دوم - سلوک و تصوّف کی حقیقت)  



از : شبلی فردوسی ۔۔ 
اورنگ آباد (بہار) 
ایم - اے (اردو) جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی)  و مگدھ یونیورسٹی (بودھ گیا) .. 

Saturday 20 June 2020

غزل

پہلے بگڑے تھے پھر سُدھارا ہے 
اپنے ہاتھوں سے خود کو مارا ہے ۔۔ 

اتنی آساں نہیں محبت بھی 
اس کا اک وار بھی کرارا ہے ۔۔۔ 

ڈھونڈنے سے نہیں ملا ہمدم 
کہنے کو یہ جہان سارا ہے ۔۔۔ 

دل کے زخموں کا نہ کرو مرہم
رفتہ رفتہ اسے سنوارا ہے ۔۔ 

راستہ چھوڑو مجھ کو جانے دو 
میری وحشت نے پھر پکارا ہے ۔۔ 

تیری بانہیں تجھے مبارک ہوں
مجھ کو تنہائی کا سہارا ہے ۔۔ 

میری دنیا میں روشنی کا دیا 
کالی پرچھائیں کا اشارہ ہے ۔۔ 

تم تو رعنائیوں کا مُژدہ ہو 
میرا یہ دشت ہی نظارہ ہے ۔۔

میری خوشیوں کی تم دعا نہ کرو
میرا غم جان سے بھی پیارا ہے ۔۔ 

خون تھوکا ہے اس لئے اکثر ،
یہ جو دل ہے نا وہ ہمارا ہے ۔۔ 

جس کی ہیبت سے کانپ جاتے ہو 
میرے دریا کا وہ کنارا ہے ۔۔ 

وہ جو خاموش شخص ہے شبلی
اِک بھڑکتا ہوا شرارا ہے ۔۔ 

از : شبلی فردوسی ۔۔۔ 

Thursday 18 June 2020

غزل ‏

یہ جو دیوانگی سی طاری ہے 
یہ مسلسل سی بےقراری ہے ۔۔ 

 زندگی بس میں ہو نہ ہو میری 
موت پر اپنی اختیاری ہے ۔۔ 

مشورہ آپکا ہے نیک مگر 
پر سماعت پہ میری بھاری ہے ۔۔ 

زندگی روز ہی سسکتی ہے 
اور یہ عُمر اب بھی جاری ہے ۔۔ 

زنگ آلود ہے یہ آئینہ 
میری آنکھوں میں دنیا داری ہے ۔۔ 

میرے جینے کی مشکلیں یہ ہیں 
میری ہر سانس مجھ کو بھاری ہے۔۔ 

مجھ کو میرے جنوں نے گھیرا ہے 
 کیفیت اور بھی اضطراری ہے ۔۔ 

غیر تو غیر ہی تھے شکوہ کیا 
میں نے یہ جنگ خود سے ہاری ہے ۔۔ 

تجھ سے غافل رہوں تو مر جاؤں
جسم پر روح کی سواری ہے ۔۔ 

جب بھی چاہوں گا میں بلا لوں گا 
موت سے گہری اپنی یاری ہے ۔۔ 

میرا جو دل ہے وہ تمہارا ہے 
اور یہ زیست بھی تمہاری ہے ۔۔ 

اپنے مصرعوں پہ حق نہیں ہم کو 
تم سے ہی شاعری ہماری ہے ۔۔ 

آنکھوں میں خون کے جو قطرے ہیں 
شاید اب موت کی ہی باری ہے ۔۔ 

اس سے پہلے کہ دم نکل جائے  
آ بھی جا تیری انتظاری ہے ۔۔ 

اپنے دشمن بنے ہو کیوں شبلی 
کس لئے اب یہ شب بیداری ہے ۔۔ ؟؟ 

از : شبلی فردوسی ۔۔۔ 

شرم ‏تم ‏کو ‏مگر ‏نہیں ‏آتی ‏

عید آئی اور گزر گئی، صورتحال ہم سب کے سامنے ہیں ۔ کیا واقعی عید کی خوشیاں تھیں؟؟ کیا سچ میں ہماری عید یہی ہے؟؟  بہرحال کم و بیش ہر ایک دل ایک انجانے سے کرب میں مبتلا ہے ، میں اس اذیت کو کوئی نام نہیں دینا چاہتا ۔ خیر اس موضوع کی طرف نہیں جاؤں گا ، بات لمبی ہو جائے گی ۔ 

تحریر کا مقصد کچھ اور ہے جو اس لاک ڈاؤن میں مسلسل محسوس کرتا رہا ، خاص طور پر رمضان کے مہینے میں تو آنکھوں سے دیکھا اور تجربہ کیا اور وہ یہ کہ ہمارے مابین الحمد اللہ مال والوں کی بہتات ہے  ۔ معاشرے میں ایسے صاحبِ زر کی کوئی کمی نہیں جنہیں اللہ نے اپنے کرم سے خوب نوازا ہے اس کے باوجود وہ بیچارے محتاج ہیں ، در حقیقت وہ صاحبِ زر نہیں بلکہ صاحبِ زیر ہیں ۔
 انکی ہوس نے انہیں اس قدر محتاج بنا دیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور غرباء کی مدد کرنا تو دور وہ اپنی ہوس کے ہاتھوں اتنا معذور ہو چکے ہیں کہ خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں، ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟؟
 
 یہ بھی ایک الگ گروہ ہے جن کا تعلق ایک خاص زمرے سے ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
(الذي جمع مالا وعددة ) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا ، ثلیث زبان میں یہ کہ اس مال پر وہ سانپ بن کر بیٹھ گۓ -
جہاں تک مال یا جائداد کا تعلق ہے تو شرعاً یہ اللہ کی وہ امانت ہے جس میں ہمیں تصرف کا حق تو حاصل ہے مگر اسکی حد معین ہے اس اضافے کے ساتھ کہ ہمارے مال میں غرباء اور مساکین کے حقوق متعین ہیں اور اگر ہم ان کے حقوق سے گریز کریں تو گویا کہ ہم اللہ کے حدود کو لانگھتے ہیں اور ہمارا شمار بھی ان ہی ظالموں میں ہے جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے کہ ( ومن يتعدٌ حدوداللّه فاولٓئك هم الظٌالمون) يعني جو لوگ اللہ کے حدود کو پار کرتے ہیں وہ ظالم ہیں --- 

ترس آتا ہے ان بیچاروں کے حال پر جنہیں بخیل کہنا بھی شاید موزوں نہیں ، یقیناً انہیں اس سے بھی بڑے اعزاز سے نوازا جانا چاہئے ۔ وہ جن کے کالر تو سفید  ہیں مگر قلب سیاہ ، وہ جو شہر اور محلے کی گلیوں میں سر اٹھا کے پھرتے ہیں مگر انکا قد بیحد پست و بونا ہے اور وہ جو بظاہر زندہ نظر آتے ہیں مگر ان کا ضمیر مُردہ ہو چکا ہے ۔ 

#شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔  

صد ہزار شکر کہ وہیں دوسری طرف ماشاءاللہ ایسے ہمنوا بھی ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں مگر حوصلہ ہے، اللہ نے انہیں جتنا بھی بخشا ہے اس میں وہ نہ صرف اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں ضرورت مند کا خیال بھی رکھتے ہیں اور انکی مدد اپنا عین فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے
مال میں خوب برکت دے اور تمام نیک اعمال کا اجر دے ۔ اٰمین 
بےشک یہی دین ہے اور یہی دین کی راہ ۔ 

دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں غنی بنائے اور ایسے مال سے اپنے پناہ میں رکھے کہ جس کو پانے سے ہم محتاج ہو جائیں ۔ اٰمین 

شبلی فردوسی ... 
ایم - اے (اردو) جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی و مگدھ یونیورسٹی،  بودھ گیا ۔۔ 

دعائے ‏شبلی ‏

دعا : 

یا ساری الجھنوں سے خدایا نکال دے
یا مجھ کو میرے درد کے سانچے میں ڈھال دے۔

یا خلق کی تڑپ سے تو آگاہ کر مجھے 
یا سینے سے  میرے تو میرا دل نکال دے ۔۔ 

یا  ریزہ ریزہ کر کے فضا میں بکھیر دے 
یا منتشر سے قبل مجھے تو سنبھال دے ۔۔ 

یا میرے جُرم کے لئے بدحال کر مجھے
یا تو خطا مُعاف کر اور اچھا حال دے ۔۔ 

یا اس جہانِ فانی میں بھٹکا کے چھوڑ دے
یا گُمرہی کی راہ سے مولا نِکال دے ۔۔ 

یا مجھ سے میری قوتِ گُفتار چھین لے 
یا مجھ کو کوئی نیک عمل ذوالجلال دے ۔۔ 

یا مجھ کو غور و فکر سے محروم کر خدا
یا فکر بے حساب دے اچھا خیال دے ۔۔ 

یا ایسے عِلمِ کجروی سے قلب پاک کر 
یا دے صلاحیت تو کہ دنیا مثال دے ۔۔ 

یا ٹوٹے پھوٹے میرے ہُنر کو تمام کر
یا میری فکر کو تو عروجِ کمال دے ۔۔ 

اتنی دعا ہے شبلی کی پُر مغز ہو سُخن 
 اقبالؒ کی طرح ہی سُخن میں جمال دے ۔۔ 

از : شبلی فردوسی ۔۔ 

Sunday 30 December 2018

علامہ اقبال اور ایما کا تعلق : عشق یا سادگی کی انتہا ؟؟

علامہ اقبال اور ایما کا تعلق، عشق یا سادگی کی انتہا؟

میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں، لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہِ کرم میں نے جو لکھا ہے اس کے لیے مجھے معاف فرمائیے۔'

یہ خط علامہ محمد اقبال کے ایملی ایما ویگےناسٹ کے نام جرمن زبان میں لکھے گئے متعدد خطوط میں سے ایک ہے۔

ایما سے اقبال کی ملاقات دریائے نیکر کے کنارے واقع سرسبز و شاداب مناظر سے مالامال قصبے ہائیڈل برگ میں ہوئی تھی۔ ایک تو ماحول رومان پرور، اوپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین و جمیل ایما۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ ایک ہندوستانی شاعر کا دل ان پر آ گیا، نہ آتا تو حیرت ہوتی۔

اقبال کی نظم ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ، کے کنارے پر) سے ان کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے:

خاموش ہے چاندنی قمر کی / شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی

وادی کے نوا فروش خاموش / کہسار کے سبز پوش خاموش

فطرت بے ہوش ہو گئی ہے / آغوش میں شب کے سو گئی ہے

کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے / نیکر کا خرام بھی سکوں ہے

اے دل! تو بھی خموش ہو جا / آغوش میں غم کو لے کے سو جا

اقبال کے دل میں ایما کا کیا مقام تھا اور ان کے ایما سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی، اس کا کچھ کچھ اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے:

'براہِ کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں۔'

ان خطوط سے اقبال کے اس روایتی تصور سے بالکل مختلف تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جو ہم شروع ہی سے نصابی کتابوں اور یومِ اقبال پر کی گئی تقاریر میں دیکھتے رہے ہیں۔ ان خطوط میں اقبال حکیم الامت اور مفکرِ پاکستان کم اور جذبات سے مغلوب نوجوان زیادہ نظر آتے ہیں۔

21 جنوری 1908 کو انھوں نے لندن سے ایما کے نام خط میں لکھا:

'میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے۔ اور ایک شعلے سے ایک بڑا الاؤ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ سردمہر ہیں، غفلت شعار ہیں۔ آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں کچھ نہ کہوں گا، ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔'

'خوش رہنے کا حق'

اقبال اس وقت نہ صرف شادی شدہ تھے بلکہ دو بچوں کے باپ بھی بن چکے تھے، یہ الگ بات کہ 18 برس کی عمر میں والدین کی پسند سے کریم بی بی سے ہونے والی اس شادی سے وہ سخت ناخوش تھے۔ ایک خط میں انھوں نے لکھا:

'میں نے والد صاحب کو لکھ دیا ہے کہ انھیں میری شادی طے کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، خصوصاً جب کہ میں نے پہلے ہی اس قسم کے کسی بندھن میں گرفتار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اس کی کفالت کے لیے تیار ہوں لیکن اس کو ساتھ رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لینے کے بالکل تیار نہیں ہوں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے بھی خوش رہنے کا حق حاصل ہے، اگر سماج یا قدرت مجھے یہ حق دینے سے انکار کرتے ہیں تو میں دونوں کا باغی ہوں۔ اب صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے اس بدبخت ملک سے چلا جاؤں یا پھر شراب میں پناہ لوں جس سے خودکشی آسان ہو جاتی ہے۔'

برطانیہ پہنچ کر مشرق کی پراسرایت سے معمور اور غیر معمولی حد تک ذہین و فطین اقبال نے خواتین کی توجہ مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لی۔ اس وقت تک ان کا کلام شمالی ہندوستان کے گوشے گوشے میں معروف ہو چکا تھا اور لوگ گلیوں میں اسے گاتے پھرتے تھے، اور اس شہرت کے کچھ کچھ چرچے انگلستان بھی پہنچ چکے تھے۔

ان سے متاثر ہونے والی انھی خواتین میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں جنھوں نے ایک کتاب میں اقبال کے اس دور پر روشنی ڈالی ہے۔ عطیہ فیضی بمبئی کے ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد حسن آفندی بڑے تاجر تھے جو دوسرے ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ روشن خیال تھے اور انھوں نے نہ صرف اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ ان پر پردہ کرنے کا دباؤ بھی نہیں ڈالا۔ اس وقت کے گھٹے ہوئے ہندوستانی معاشرے میں یہ بات انوکھی تھی کہ ایک خاتون جو نہ صرف بےحد پڑھی لکھی ہے بلکہ مردوں کی محفل میں بیٹھ کر ان سے برابری کی سطح پر مکالمہ کر سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عطیہ نے اقبال کے علاوہ شبلی نعمانی کو بھی متاثر کیا جس کی تفصیل 'شبلی کی حیاتِ معاشقہ' میں مل جاتی ہے۔

بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید اقبال عطیہ کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے، لیکن ہمارے خیال سے ان کا عطیہ سے دوستی فکری سطح پر تھی اور وہ ان سے فلسفیانہ مباحث کیا کرتے تھے۔ عطیہ کے نام لکھے گئے خطوط کا اگر ایما کے نام خطوط سے موازنہ کیا جائے تو فرق رات اور دن کی طرح واضح ہے۔

اقبال کے دل کی تمنا کچھ اور ہی تھی اور انھیں شک تھا کہ یہ تمنا کبھی پوری ہو گی بھی یا نہیں۔

جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بےتاب / پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب

ابدی بنتا ہے یہ عالمِ فانی جس سے / ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے

آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں / خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں

مل گیا وہ گل مجھے

اقبال نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ 'بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے،' چنانچہ جرمنی میں ان کی دعا باریاب ہوئی، اور غالباً ایما کی صورت میں انھیں وہ نگیں مل گیا جس کی انھیں تلاش تھی۔ اس کے بعد انھیں یہ لکھنے میں دیر نہیں لگی:

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے / خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے

ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے / چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے

اقبال انگلستان میں کیا کر رہے تھے؟

اقبال دو سال پہلے انگلستان آئے تھے جہاں انھوں نے کیمبرج سے بی اے کے ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی دوران انھوں نے 'ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا' نامی مقالہ لکھا اور اب وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اسی مقالے پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے انھوں نے 1907 کے موسمِ بہار میں جرمنی کا سفر اختیار کیا تھا جہاں ان کی ملاقات ایما سے ہوئی۔

ایما 26 اگست 1879 کو دریائے نیکر کے کنارے واقع قصبے ہائلبرون میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے (بڑے بھائی کارل کا ذکر آگے چل کر آئے گا)۔

ایما 29 سالہ اقبال سے عمر میں دو برس چھوٹی لیکن قد میں ایک انچ لمبی تھیں۔ ان کی صرف ایک تصویر ہماری نظر سے گزری ہے جس میں ان کی آنکھوں سے وہی شریر تبسم جھلک رہا ہے جس کا ذکر اقبال نے اسی دور کی ایک غیر مطبوعہ اور نامکمل نظم 'گم شدہ دستانہ' میں کیا ہے:

رکھا تھا میز پر ابھی ہم نے اتار کر / تو نے نظر بچا کے ہماری اڑا لیا / آنکھوں میں ہے تری جو تبسم شریر سا

ایما کی مادری زبان جرمن تھی، لیکن وہ یونانی اور فرانسیسی سے بھی خوب واقف تھیں۔ اس کے علاوہ وہ فلسفے اور شاعری سے بھی خاص شغف رکھتی تھیں اور یہی ان کے اور اقبال کے درمیان وجۂ اشتراک بھی ہے۔ اقبال کے خطوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایما کے ساتھ مل کر مشہور جرمن شاعر گوئٹے کو بھی سبقاً سبقاً پڑھا تھا۔

یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایما نے 'پینسیون شیرر' نامی بورڈنگ ہاؤس میں ملازمت اختیار کر لی جہاں وہ بین الاقوامی طلبہ کو جرمن زبان سکھاتی تھیں، اور اس کے بدلے میں انھیں مفت طعام و قیام فراہم کیا جاتا تھا۔

اقبال نے کسی زمانے میں لکھا تھا کہ:

میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث / بات جو ہندوستان کے ماہ سیماؤں میں تھی

لیکن یہ بات انگلستان کی حد تک درست تھی۔ جرمنی پہنچ کر ان کا خیال بدل گیا۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ 'انگریز عورت میں وہ نسائیت اور بےساختگی نہیں جو جرمن عورت میں ہے۔ جرمن عورت ایشیائی عورت سے ملتی ہے۔ اس میں محبت کی گرمی ہے۔ انگریز عورت میں یہ گرمی نہیں۔ انگریز عورت گھریلو زندگی اور اس کی بندشوں کی اس طرح شیدا نہیں جس طرح جرمن عورت ہے۔'

'بالکل مختلف اقبال'

عطیہ فیضی نے ہائیڈل برگ میں جو اقبال دیکھا اس سے وہ حیران رہ گئیں۔ وہ اپنی کتاب 'اقبال' میں لکھتی ہیں:

'یہ اس اقبال سے بالکل مختلف تھے جسے میں نے لندن میں دیکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے جرمنی ان کے وجود کے اندر سما گیا ہے، اور وہ درختوں (کے نیچے سے گزرتے ہوئے) اور گھاس پر چلتے ہوئے علم کشید کر رہے تھے۔۔۔ اقبال کا یہ پہلو میرے لیے بالکل انوکھا تھا، اور لندن میں جو ایک قنوطی کی روح ان میں حلول کر گئی تھی وہ یہاں یکسر غائب ہو گئی تھی۔'

لندن کے اقبال کے بارے میں عطیہ نے لکھا ہے کہ 'وہ بہت تیز آدمی تھے اور دوسروں کی کمزوریاں کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے، اور لوگوں پر طنز کے تیر برساتے رہتے تھے۔' وہاں اقبال محفل کے دوران خاموشی سے بلکہ بظاہر بوریت کے عالم میں سب کی باتیں سنتے رہتے تھے لیکن جونھی موقع ملتا تھا، وہ چمک کر گفتگو میں شامل ہو جاتے تھے اور اپنی حیران کن دانش اور فراست سے سب پر چھا جاتے تھے۔

لیکن ہائیڈل برگ میں عطیہ نے دیکھا کہ اقبال کے اساتذہ جب انھیں ٹوکتے تھے تو وہ بچوں کی طرح اپنے ناخن چبانے لگتے اور کہتے، 'ارے، مجھے اس بات کا تو خیال ہی نہیں آیا، مجھے یوں نہیں، یوں کہنا چاہیے تھا۔'

عطیہ کے بیان کے مطابق اقبال یہاں جرمن سیکھنے کے علاوہ رقص، موسیقی، کشتی رانی اور ہائیکنگ کے درس بھی لے رہے تھے۔ اسی دوران انھوں نے کشتی رانی کے مقابلے میں تھی حصہ لیا تھا لیکن آخری نمبر پر آئے۔ عطیہ کی کتاب میں اقبال کی کشتی چلاتے ہوئے تصویر بھی ہے۔

عطیہ نے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر بھی کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ ایما بھی اقبال سے بےحد متاثر تھیں۔

گجرا بیچن والی نادان

ہوا یوں کہ ایما نے ایک دن اوپرا گانا شروع کر دیا۔ اقبال نے ان کا ساتھ دینا چاہا لیکن مغربی موسیقی سے ناواقفیت کی بنا پر بےسرے ہو گئے۔

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال نے بےحد عمدہ گلا پایا تھا بلکہ ہندوستان میں ترنم سے مشاعرے پڑھنے کی طرح انھی نے ڈالی تھی اور وہ جب اپنا کلام اپنی سریلی آواز میں پڑھتے تھے تو اس کی تاثیر دوگنی چوگنی ہو کر بڑے سے بڑے مجمعے کو بہا لے جاتی تھی۔

لیکن جب وہ اوپرا گاتی ہوئی ایما کا ساتھ نہیں دے سکے تو انھیں اس پر سخت خفت محسوس ہوئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ شاید ایما کو بھی اس کا احساس ہوا اور اسی رات انھوں نے عطیہ سے درخواست کی کہ وہ انھیں کوئی ہندوستانی گیت سکھا دیں۔

اگلے دن جب سبھی دریائے نیکر کے کنارے پکنک کے لیے نکلے تو اچانک ایما نے گانا شروع کر دیا:

گجرا بیچن والی نادان

یہ تیرا نخرہ

ایما کی زبان سے یہ گیت سن کر اقبال پر جو اثر ہوا ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

عطیہ کے مطابق ایک دن ایما دوسری لڑکیوں کے ساتھ مل کر ورزش کر رہی تھیں اور اقبال ٹکٹکی باندھ کر انھیں تکے جا رہے تھے۔ عطیہ نے ٹوکا تو وہ کہنے لگے، 'میں فلکیات دان بن گیا ہوں، ستاروں کے جھرمٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں!'

موسیقی کے علاوہ مغربی رقص بھی اقبال کے دسترس سے باہر تھا۔ عطیہ نے لکھا ہے کہ اقبال ایما کے ساتھ رقص بھی کیا کرتے تھے لیکن ایسے اناڑی پن کے ساتھ کہ ان کے قدم اکثر اوچھے پڑتے تھے۔

بعض ماہرینِ اقبالیات کے مطابق معاملہ صرف زبانی کلامی نہیں رہا تھا اور اقبال ایما سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ خود ایما کے کزن کی بیٹی ہیلاکرش ہوف نے سعید اختر درانی کو بتایا تھا کہ ایما 1908 کے لگ بھگ ہندوستان جانا چاہتی تھیں لیکن ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے سربراہ کارل نے انھیں اس دور دراز ملک میں تنہا جانے سے منع کر دیا تھا۔

دو بڑے بھائی ’ظالم سماج‘ بن گئے

دوسری طرف اقبال ہندوستان لوٹنے کے بعد بڑی شدت سے یورپ واپس جانا چاہتے تھے، جس کا اظہار انھوں نے نہ صرف کئی بار ایما سے بھی کیا بلکہ عطیہ کو لکھے گئے خطوط میں بھی اس کا عندیہ ملتا ہے۔ ہم ایسے ایک خط کا اقتباس اوپر دے چکے ہیں۔

لیکن جس طرح ایما کے بڑے بھائی ان کے ہندوستان جانے کی راہ میں آڑے آ گئے، تقدیر کی ایک عجیب ستم ظریفی کی رو سے بالکل اسی طرح اقبال کے بڑے بھائی ان کے واپس ولایت جانے میں رکاوٹ بن گئے۔ نو اپریل 1909 کو وہ لکھتے ہیں: 'میں کوئی ملازمت کرنا ہی نہیں چاہتا، میرا منشا تو یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ سبب آپ کو معلوم ہے۔ میرے اوپر اپنے بڑے بھائی کا اخلاقی قرض ہے جو مجھے روکے ہوئے ہے۔'

اخلاقی قرض یہ تھا کہ اقبال کی تعلیم کے اخراجات ان کے بھائی نے ادا کیے تھے، اور وہ یورپ سے آنے کے بعد انھیں یہ رقم لوٹانا چاہتے تھے۔

وہ ایما کو لکھتے ہیں: 'کچھ عرصے بعد جب میرے پاس پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ کو اپنا گھر بناؤں گا، یہ میرا تصور ہے اور میری تمنا ہے کہ یہ سب پورا ہو گا۔'

تاہم یہ تصور، یہ تمنا ناکام حسرت بن گئی۔ اقبال کی زندگی کا یہ حصہ سخت مالی مشکلات سے نمٹتے ہوئے گزرا۔

اس تمام عرصے کے دوران ایما کی یاد ان کے دل سے کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ بڑی حسرت سے لکھتے ہیں: 'مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب میں آپ کے ساتھ مل کر گوئٹے کا کلام پڑھا کرتا تھا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بھی وہ خوشیوں بھرے دن یاد ہوں گے جب ہم ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے مل سکوں۔'

ایک اور خط میں لکھا:

'آپ کا خط پا کر مجھے ہمیشہ بہت مسرت ہوتی ہے اور میں بےتابی سے اس وقت کا منتظر ہوں جب میں دوبارہ آپ سے آپ کے وطن میں مل سکوں گا۔ میں جرمنی میں اپنا قیام کبھی فراموش نہ کروں گا۔ میں یہاں بالکل اکیلا رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں۔ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔'

شاعری کی دیوی

ایما سے ملاقات کے 24 برس بعد 1931 میں گول میز کانفرنس کے لیے جب اقبال لندن گئے تو اس وقت بھی انھوں نے جرمنی جا کر ایما سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، اقبال نے دو مزید شادیاں کر لی تھیں اور ان کے بچے جوان ہو گئے تھے، اس لیے یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔

اقبال نے بہت پہلے لکھا تھا:

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں / مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

شاید یہ ان کی سادگی ہی تھی کہ ہندوستان لوٹنے کے بعد بھی ایما سے ملن کے خواب دیکھتے رہے۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ہوائی سفر مستقبل میں تھا اور سمندر کے راستے ہندوستان سے یورپ جانے میں مہینوں لگا کرتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سات سمندر حائل تھے۔

ایما سے اقبال کے تعلق کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، تاہم ایما نے اقبال کی 'میوز' بن کر ان کی شاعری میں وہ کسک اور دردمندی پیدا کر دی جس سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کے کلام میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو اس دور کی یادگار ہیں۔

اوپر دی گئی مثالوں کے علاوہ 'حسن و عشق،' '۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر،' 'چاند اور تارے،' 'کلی،' 'وصال،' 'سلیمیٰ،' عاشقِ ہرجائی،' 'جلوۂ حسن،' 'اخترِ صبح،' 'تنہائی' اور دیگر کئی نظمیں شامل ہیں جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔

اقبال اور ایما کا ملاپ نہیں ہو سکا، لیکن اردو دنیا کو پھر بھی ایما کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی بدولت اردو کو چند لازوال رومانوی نظمیں مل گئیں۔