پہلے بگڑے تھے پھر سُدھارا ہے
اپنے ہاتھوں سے خود کو مارا ہے ۔۔
اتنی آساں نہیں محبت بھی
اس کا اک وار بھی کرارا ہے ۔۔۔
ڈھونڈنے سے نہیں ملا ہمدم
کہنے کو یہ جہان سارا ہے ۔۔۔
دل کے زخموں کا نہ کرو مرہم
رفتہ رفتہ اسے سنوارا ہے ۔۔
راستہ چھوڑو مجھ کو جانے دو
میری وحشت نے پھر پکارا ہے ۔۔
تیری بانہیں تجھے مبارک ہوں
مجھ کو تنہائی کا سہارا ہے ۔۔
میری دنیا میں روشنی کا دیا
کالی پرچھائیں کا اشارہ ہے ۔۔
تم تو رعنائیوں کا مُژدہ ہو
میرا یہ دشت ہی نظارہ ہے ۔۔
میری خوشیوں کی تم دعا نہ کرو
میرا غم جان سے بھی پیارا ہے ۔۔
خون تھوکا ہے اس لئے اکثر ،
یہ جو دل ہے نا وہ ہمارا ہے ۔۔
جس کی ہیبت سے کانپ جاتے ہو
میرے دریا کا وہ کنارا ہے ۔۔
وہ جو خاموش شخص ہے شبلی
اِک بھڑکتا ہوا شرارا ہے ۔۔
No comments:
Post a Comment