Thursday, 18 June 2020

شرم ‏تم ‏کو ‏مگر ‏نہیں ‏آتی ‏

عید آئی اور گزر گئی، صورتحال ہم سب کے سامنے ہیں ۔ کیا واقعی عید کی خوشیاں تھیں؟؟ کیا سچ میں ہماری عید یہی ہے؟؟  بہرحال کم و بیش ہر ایک دل ایک انجانے سے کرب میں مبتلا ہے ، میں اس اذیت کو کوئی نام نہیں دینا چاہتا ۔ خیر اس موضوع کی طرف نہیں جاؤں گا ، بات لمبی ہو جائے گی ۔ 

تحریر کا مقصد کچھ اور ہے جو اس لاک ڈاؤن میں مسلسل محسوس کرتا رہا ، خاص طور پر رمضان کے مہینے میں تو آنکھوں سے دیکھا اور تجربہ کیا اور وہ یہ کہ ہمارے مابین الحمد اللہ مال والوں کی بہتات ہے  ۔ معاشرے میں ایسے صاحبِ زر کی کوئی کمی نہیں جنہیں اللہ نے اپنے کرم سے خوب نوازا ہے اس کے باوجود وہ بیچارے محتاج ہیں ، در حقیقت وہ صاحبِ زر نہیں بلکہ صاحبِ زیر ہیں ۔
 انکی ہوس نے انہیں اس قدر محتاج بنا دیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور غرباء کی مدد کرنا تو دور وہ اپنی ہوس کے ہاتھوں اتنا معذور ہو چکے ہیں کہ خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں، ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے؟؟
 
 یہ بھی ایک الگ گروہ ہے جن کا تعلق ایک خاص زمرے سے ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
(الذي جمع مالا وعددة ) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا ، ثلیث زبان میں یہ کہ اس مال پر وہ سانپ بن کر بیٹھ گۓ -
جہاں تک مال یا جائداد کا تعلق ہے تو شرعاً یہ اللہ کی وہ امانت ہے جس میں ہمیں تصرف کا حق تو حاصل ہے مگر اسکی حد معین ہے اس اضافے کے ساتھ کہ ہمارے مال میں غرباء اور مساکین کے حقوق متعین ہیں اور اگر ہم ان کے حقوق سے گریز کریں تو گویا کہ ہم اللہ کے حدود کو لانگھتے ہیں اور ہمارا شمار بھی ان ہی ظالموں میں ہے جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے کہ ( ومن يتعدٌ حدوداللّه فاولٓئك هم الظٌالمون) يعني جو لوگ اللہ کے حدود کو پار کرتے ہیں وہ ظالم ہیں --- 

ترس آتا ہے ان بیچاروں کے حال پر جنہیں بخیل کہنا بھی شاید موزوں نہیں ، یقیناً انہیں اس سے بھی بڑے اعزاز سے نوازا جانا چاہئے ۔ وہ جن کے کالر تو سفید  ہیں مگر قلب سیاہ ، وہ جو شہر اور محلے کی گلیوں میں سر اٹھا کے پھرتے ہیں مگر انکا قد بیحد پست و بونا ہے اور وہ جو بظاہر زندہ نظر آتے ہیں مگر ان کا ضمیر مُردہ ہو چکا ہے ۔ 

#شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔  

صد ہزار شکر کہ وہیں دوسری طرف ماشاءاللہ ایسے ہمنوا بھی ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں مگر حوصلہ ہے، اللہ نے انہیں جتنا بھی بخشا ہے اس میں وہ نہ صرف اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں ضرورت مند کا خیال بھی رکھتے ہیں اور انکی مدد اپنا عین فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے
مال میں خوب برکت دے اور تمام نیک اعمال کا اجر دے ۔ اٰمین 
بےشک یہی دین ہے اور یہی دین کی راہ ۔ 

دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں غنی بنائے اور ایسے مال سے اپنے پناہ میں رکھے کہ جس کو پانے سے ہم محتاج ہو جائیں ۔ اٰمین 

شبلی فردوسی ... 
ایم - اے (اردو) جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی و مگدھ یونیورسٹی،  بودھ گیا ۔۔ 

No comments:

Post a Comment