یہ جو دیوانگی سی طاری ہے
یہ مسلسل سی بےقراری ہے ۔۔
زندگی بس میں ہو نہ ہو میری
موت پر اپنی اختیاری ہے ۔۔
مشورہ آپکا ہے نیک مگر
پر سماعت پہ میری بھاری ہے ۔۔
زندگی روز ہی سسکتی ہے
اور یہ عُمر اب بھی جاری ہے ۔۔
زنگ آلود ہے یہ آئینہ
میری آنکھوں میں دنیا داری ہے ۔۔
میرے جینے کی مشکلیں یہ ہیں
میری ہر سانس مجھ کو بھاری ہے۔۔
مجھ کو میرے جنوں نے گھیرا ہے
کیفیت اور بھی اضطراری ہے ۔۔
غیر تو غیر ہی تھے شکوہ کیا
میں نے یہ جنگ خود سے ہاری ہے ۔۔
تجھ سے غافل رہوں تو مر جاؤں
جسم پر روح کی سواری ہے ۔۔
جب بھی چاہوں گا میں بلا لوں گا
موت سے گہری اپنی یاری ہے ۔۔
میرا جو دل ہے وہ تمہارا ہے
اور یہ زیست بھی تمہاری ہے ۔۔
اپنے مصرعوں پہ حق نہیں ہم کو
تم سے ہی شاعری ہماری ہے ۔۔
آنکھوں میں خون کے جو قطرے ہیں
شاید اب موت کی ہی باری ہے ۔۔
اس سے پہلے کہ دم نکل جائے
آ بھی جا تیری انتظاری ہے ۔۔
اپنے دشمن بنے ہو کیوں شبلی
کس لئے اب یہ شب بیداری ہے ۔۔ ؟؟
از : شبلی فردوسی ۔۔۔
No comments:
Post a Comment