ہر طرز میرا ' الفاظ میرے ' جزبات میرے تجھ سے
ہر سوز میرا اور ساز میرے ' خیالات میرے تجھ سے
کیسے میں کہوں کہ بھول گیا ' تجھکو تو پتا ہے حال میرا
ہر صبح میری اور شام میری ' دن رات میرے تجھ سے
ہر آہٹ پہ بس تو ہی تو ' جب بھی میں تنہا ہوتا ہوں
میرے نغموں کی آواز ہے تو ' لمحات میرے تجھ سے
جب جب بھی ذکرِ وفا ہوئ ' آنکھوں میں تیری وضع ہوئ
ہر سانس میری ' احساس میرا ' اِثبات میرے تجھ سے
ہر خطا کو میری معاف کیا اور الفت کا اظہار کیا
ماں کی مامتا میں جھلک تیری 'خطبات میرے تجھ سے
تیری یاد سے دل کو راحت ہے اور ساتھ میں تیری رحمت ہے
اَعلَم تو ہے اور اعلیٰ تو ' ذرّات میرے تجھ سے
کبھی قربت دی ' کبھی دور کیا ' انداز تیرا یہ تو جانے
پر وفا تھی یہ یا جفا ہوئ ' سوالات میرے تجھ سے
ہر ساےُ میں تصویر تیری اور راز میرے سب تیرے ازیں
یہ رشتہ تیرا یا شبلی کا ' شبہات میرے تجھ سے...
از:- شبلی فردوسی.