Wednesday 30 November 2016

غزل

ہر طرز میرا ' الفاظ میرے ' جزبات میرے تجھ سے
ہر سوز میرا اور ساز میرے ' خیالات میرے تجھ سے

کیسے میں کہوں کہ بھول گیا ' تجھکو تو پتا ہے حال میرا
ہر صبح میری اور شام میری ' دن رات میرے تجھ سے

ہر آہٹ پہ بس تو ہی تو ' جب بھی میں تنہا ہوتا ہوں
میرے نغموں کی آواز ہے تو ' لمحات میرے تجھ سے

جب جب بھی ذکرِ وفا ہوئ ' آنکھوں میں تیری وضع ہوئ
ہر سانس میری ' احساس میرا ' اِثبات میرے تجھ سے

ہر خطا کو میری معاف کیا اور الفت کا اظہار کیا
ماں کی مامتا میں جھلک تیری 'خطبات میرے تجھ سے

تیری یاد سے دل کو راحت ہے اور ساتھ میں تیری رحمت ہے
اَعلَم تو ہے اور اعلیٰ تو ' ذرّات میرے تجھ سے

کبھی قربت دی ' کبھی دور کیا ' انداز تیرا یہ تو جانے
پر وفا تھی یہ یا جفا ہوئ ' سوالات میرے تجھ سے

ہر ساےُ میں تصویر تیری اور راز میرے سب تیرے ازیں
یہ رشتہ تیرا یا شبلی کا ' شبہات میرے تجھ سے...

از:- شبلی فردوسی.

Thursday 24 November 2016

Ghazal

http://wp.me/p86FIP-f

غزل...

حیرت کی بات ہے کہ مجھے جانتے نہیں؛
وہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ پہچانتے نہیں...

آنکھیں بیان کرتی ہیں سب راز دلوں کے؛
یہ  بات  جدا   ہے  کہ   لب    بولتے   نہیں...

کیوں آتی ہے ہنسی  '  غمِ  غیر  پہ   خدا  ؛
گھر  جسکا  جل  گیا  ہو  وہ  ہنستے  نہیں...

رکتے ' ٹھہرتے وہ ہیں منزل ہو پاس جن کے؛
پرواز  جنکو  کرنا  ہو  وہ  سوچتے  نہیں...

ہر  روز  آیا  سورج  لیکر  نئ  کرن  کو     ؛
کیوں  نفرتوں  کے  بادل  پھر  چھٹتے  نہیں...

الفت کا دور تھا جو وہ بیت گیا  شاید    ؛
رستے  بدلتے  ہیں  اب '  وہ  دیکھتے   نہیں...

مظلوموں کی ہیں راتیں ' آنسو بھرا شب انکا؛
بکھرے  ہوں  خواب  جنکے ' وہ  سوتے  نہیں...

اس  دور  کا  سناّٹا  کیوں  چیخ  رہا  شبلی  ؛
کیا   جانتے   نہیں   ہو '  کیا   سنتے   نہیں...  

از :-  شبلی فردوسی..

Sunday 20 November 2016

بےوقوفی...

جفاےُ جم میں وفا کا شمار کرتے ہیں؛
خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کرتے ہیں..
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

جنہوں نے جانا نہیں حالِ دلِ درد مرا؛
ہم آج بھی انہیں لوگوں سے پیار کرتے ہیں
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں....

جو سر سے پیر تلک جھوٹ کے پیمبر ہیں؛
انہیں کی بات کا ہم اعتبار کرتے ہیں....
یہ بے وقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں....

یہ جانتے ہیں کہ آئںیگے نا پلٹ کر وہ؛
انہیں کا آج تلک انتظار کرتے ہیں...  
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

وہ بےقراری کہ جس نے مجھے قرار ریا؛
اسی قرار کو ہم بے قرار کرتے ہیں....
یہ بےوقوفی بھی ہم بار بار کرتے ہیں...

از :- شبلی فردوسی....

Thursday 17 November 2016

نظم :- دنیا

جو بھی یہاں پہ آیا؛  آیا ' چلا گیا
دھوپ باقی رہ گئی ' سایا چلا گیا

کتنی ہی کوششوں سے' کتنی مشقتوں سے؛
اس زندگی میں جو بھی کمایا ' چلا گیا

دیتا رہا فریبِ ملاقات وہ برسوں؛
آنے کو بھی وہ کہ کے نہ آیا ' چلا گیا

ہستی جلا جلا کے دیا روشنی جسے؛
اسنے مرا چراغ بجھایا ' چلا گیا

میری سنی کسی نے نہیں جو مجھے ملا؛
دکھڑے پہ دکھڑا اپنا سنایا ' چلا گیا

از :- شبلی فردوسی...

Sunday 13 November 2016