حیرت کی بات ہے کہ مجھے جانتے نہیں؛
وہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ پہچانتے نہیں...
آنکھیں بیان کرتی ہیں سب راز دلوں کے؛
یہ بات جدا ہے کہ لب بولتے نہیں...
کیوں آتی ہے ہنسی ' غمِ غیر پہ خدا ؛
گھر جسکا جل گیا ہو وہ ہنستے نہیں...
رکتے ' ٹھہرتے وہ ہیں منزل ہو پاس جن کے؛
پرواز جنکو کرنا ہو وہ سوچتے نہیں...
ہر روز آیا سورج لیکر نئ کرن کو ؛
کیوں نفرتوں کے بادل پھر چھٹتے نہیں...
الفت کا دور تھا جو وہ بیت گیا شاید ؛
رستے بدلتے ہیں اب ' وہ دیکھتے نہیں...
مظلوموں کی ہیں راتیں ' آنسو بھرا شب انکا؛
بکھرے ہوں خواب جنکے ' وہ سوتے نہیں...
اس دور کا سناّٹا کیوں چیخ رہا شبلی ؛
کیا جانتے نہیں ہو ' کیا سنتے نہیں...
از :- شبلی فردوسی..
No comments:
Post a Comment