جو بھی یہاں پہ آیا؛ آیا ' چلا گیا
دھوپ باقی رہ گئی ' سایا چلا گیا
کتنی ہی کوششوں سے' کتنی مشقتوں سے؛
اس زندگی میں جو بھی کمایا ' چلا گیا
دیتا رہا فریبِ ملاقات وہ برسوں؛
آنے کو بھی وہ کہ کے نہ آیا ' چلا گیا
ہستی جلا جلا کے دیا روشنی جسے؛
اسنے مرا چراغ بجھایا ' چلا گیا
میری سنی کسی نے نہیں جو مجھے ملا؛
دکھڑے پہ دکھڑا اپنا سنایا ' چلا گیا
از :- شبلی فردوسی...
No comments:
Post a Comment