Thursday, 17 November 2016

نظم :- دنیا

جو بھی یہاں پہ آیا؛  آیا ' چلا گیا
دھوپ باقی رہ گئی ' سایا چلا گیا

کتنی ہی کوششوں سے' کتنی مشقتوں سے؛
اس زندگی میں جو بھی کمایا ' چلا گیا

دیتا رہا فریبِ ملاقات وہ برسوں؛
آنے کو بھی وہ کہ کے نہ آیا ' چلا گیا

ہستی جلا جلا کے دیا روشنی جسے؛
اسنے مرا چراغ بجھایا ' چلا گیا

میری سنی کسی نے نہیں جو مجھے ملا؛
دکھڑے پہ دکھڑا اپنا سنایا ' چلا گیا

از :- شبلی فردوسی...

No comments:

Post a Comment