آنکھوں سے یا صورت سے کہاں دل کا پتا چلتا ہے
ہوا کے سنگ چلوگے تو زمانے کا پتا چلتا ہے
عشق ہے حسین مگر حسن ہے پر فریب
رسم و رواج بڑھنے سے الفت کا پتا چلتا ہے
تھا مجھکو بھی یہ ناز بڑے یار ہیں میرے
وقتِ بد آنے سے تو اپنوں کا پتا چلتا ہے
کافی ہے اک نگاہ بس شناخت کے لےُ
مومن کے ہر اشارے سے ایماں کا پتا چلتا ہے
نعرے ' ہجوم اور یہ جملے بے سود ہیں
خاموش رہ! سکوت سے طوفاں کا پتا چلتا ہے
گھبراوُگے یا پھر الجھوگے تو گزروگے کیسے
مرحلوں کے بعد تو منزل کا پتا چلتا ہے
ہو فرق قول و فعل کا تو علم نہیں ہے
جو عِلم با عمل ہو تو عالم کا پتا چلتا ہے
مشکل ہے زندگی یہ مگر اتنا جان رکھ
شبلی اندھیری رات سے مقصد کا پتا چلتا ہے
از:- شبلی فردوسی
No comments:
Post a Comment