Tuesday, 13 December 2016

غزل

آنکھوں سے یا صورت سے کہاں دل کا پتا چلتا ہے
ہوا کے سنگ چلوگے تو زمانے کا پتا چلتا ہے

عشق ہے حسین مگر حسن ہے پر فریب
رسم و رواج بڑھنے سے الفت کا پتا چلتا ہے

تھا مجھکو بھی یہ ناز بڑے یار ہیں میرے
وقتِ بد آنے سے تو اپنوں کا پتا چلتا ہے

کافی ہے اک نگاہ بس شناخت کے لےُ
مومن کے ہر اشارے سے ایماں کا پتا چلتا ہے

نعرے ' ہجوم اور یہ جملے بے سود ہیں
خاموش رہ!  سکوت سے طوفاں کا پتا چلتا ہے

گھبراوُگے یا پھر الجھوگے تو گزروگے کیسے
مرحلوں کے بعد تو منزل کا پتا چلتا ہے

ہو فرق قول و فعل کا تو علم نہیں ہے
جو عِلم با عمل ہو تو عالم کا پتا چلتا ہے

مشکل ہے زندگی یہ مگر اتنا جان رکھ
شبلی اندھیری رات سے مقصد کا پتا چلتا ہے

از:- شبلی فردوسی

No comments:

Post a Comment