پہلو میں بھی آوُ کبھی کوئ بات بتائیں
احوال سنیں تم سے ' حال اپنا سنائیں
مانا کہ روز و شب میں تم مشغول بہت ہو
دو پل کو بھی آوُ کبھی ' ہم تم کو منائیں
بیتاب ہوں ' بیچین ہوں ' یہ کیسے بتاوُں
گلے میں گھٹ نہ جائیں کہیں میری صدائیں
بھولو پرانی باتوں کو ' باتیں وفا کی ہوں
انسان ہوں' انسان سے ہوتی ہیں خطائیں
تنہائ سے اکتایا ہوں ' سہما ہوا ہوں میں
آ جاوُ اب کہ لمبی ہوئ میری سزائیں
چھوڑو بھی نفرتوں کو نیُ ابتدا کرو
سب مل کے کویُ سیج ہم الفت کا سجائیں
ہر روز کی خواہش کا یہ عنوان ہے میرا
کوئ گیت سنیں تم سے ' غزل اپنی سنائیں
میں منتظر ہوں وعدہُ دیدار کا اب تک
شبلی یہ نہیں جانتا کہ کیا ہیں جفائیں
از:- شبلی فردوسی...
No comments:
Post a Comment