Sunday 30 December 2018

نظم : نہ جانے کب سحر ہوگی

شبِ ظلمت کی تنہائی میں کب کس کو نظر ہوگی         کہاں کب کون لٹ جائے بھلا کیسے خبر ہوگی
فقط راہوں پہ کیا موقوف منزل پر خطر ہوگی

سحر کی یاد ہی تنہا ہماری ہم سفر ہوگی
نہ جانے کب سحر ہوگی، نہ جانے کب سحر ہوگی

صدائے درد اب ٹوٹے ہوئے دل کا کھلونا ہے
میرے خوابوں کو اب شرمندہ۶ تعبیر ہونا ہے
کہو کہ داغ جو ہیں آستیں پہ ان کو دھونا ہے
میں مٹی کا کھلونا ہوں نہ ہنسنا ہے نہ رونا ہے

ابھی تو شام ہی ہے کس طرح سے شب بسر ہوگی
نہ جانے کب سحر ہوگی، نہ جانے کب سحر ہوگی

سبھی کچھ تیرے ہاتھوں ہیں بھلا کیسی مشیّت ہے    ازل سے آج تک انسان سر تا پا اذیّت ہے
بھنور میں ڈال کر نہ ڈوبنے کی کیوں نصیحت ہے
کوئی انگلی اٹھائے تجھ پہ کس میں اتنی ہمّت ہے

مگر کب تک لبوں پر خامشی کی یہ مہر ہوگی
نہ جانے کب سحر ہوگی، نہ جانے کب سحر ہوگی

نہ کر دل کو جلاتی ہیں لب و رخسار کی باتیں
فریب و مَکر ہیں عہد و وفا ایثار کی باتیں
پریشانی کا باعث ہیں یہاں افکار کی باتیں
مُجلّیٰ ہیں مُرصّع ہیں در و دیوار کی باتیں

نہ چھیڑو زندگی کی بات ورنہ آنکھ تر ہوگی
نہ جانے کب سحر ہوگی، نہ جانے کب سحر ہوگی

No comments:

Post a Comment