Thursday 5 April 2018

غزل

اُدھر ہیں منجمد اب اشک میرے بہہ نہیں سکتے
اِدھر یہ حال ہے دردِ جدائی سہہ نہیں سکتے ۔۔

دھڑکنا دل کا بھی ہے شرطِ لازم زندہ رہنے کو،
فقط ایک سانس لینے کو تو جینا کہہ نہیں سکتے ۔۔

نہیں ہے جستجو تو خواب بھی بکھریں گے یہ طےء ہے
بنائے حوصلوں کے کچے مکاں بھی ڈھہہ نہیں سکتے ۔۔

غلط فہمی ہے سنگِ دل گُماں باقی رہے تیرا  ،
مگر کس نے کہا تجھ سے کہ تم بن رہ نہیں سکتے۔۔

از : شبلی فردوسی۔۔۔

No comments:

Post a Comment