Saturday 17 November 2018

غزل : ستمگر

محبت کرکے پھر انکار کرنا اور تڑپنا بھی
جنوں خیزی کے عالم میں تیرا رونا، مچلنا بھی ۔۔

بھلا بیٹھا ہے تو شاید شبِ ظلمت کی تنہائی
مجھے تو یاد ہے تیرا بلکنا بھی ، سسکنا بھی ۔۔

یوں اپنی زندگی میں چھوڑ کر سب کو بڑھا آگے
نشے میں گر پڑا ، تو بھولا چلنا بھی سنبھلنا بھی۔۔

ہے فطرت موسموں کی روز ہی تبدیل ہوتے ہیں۔،
تیرا بھی فطری تھا شاید جفا کرنا ، بدلنا بھی ۔۔

کبھی جو یاد تو کرتا شبِ غم کی وہ بیچینی ۔۔،
یقیناً یاد آتا پھر تیرا مجھ میں پگھلنا بھی ۔۔

کبھی ہونٹوں کی سرخی اور کبھی آنکھوں میں ویرانی
وہ تیری الجھنیں ، اقرار کرنا پھر مکرنا بھی ۔۔

غضب ہیں ناز تیرے، کیا عجب انداز ہے تیرا ۔۔،
وہ شکوہ ہجر کا اس پہ تیرا سجنا سنورنا بھی ۔۔

تھا میں ہی حوصلہ ، ہمّت تیری انجان راہوں پر ۔۔،
کبھی رکتے تجھے دیکھا ، کبھی ڈرنا سہمنا بھی ۔۔

میں تنہا ہی چلا ہوں ننگے پاؤں شعلوں پہ جلکر
ہے جل کر آگ سے سیکھا بھڑکنا بھی، دہکنا بھی ۔

ہوں تجھ سے بےخبر گویا کہ خود سے بھی ہوا غافل
نظر انداز کرکے تجھ کو بھولا دل دھڑکنا بھی ۔۔۔

کبھی آیا نہ تھا یوں شبلی کو پہلے نشہ کرنا
تیرے جانے سے آیا مجھ کو پینا بھی، بہکنا بھی ۔۔

از :- شبلی فردوسی

No comments:

Post a Comment