Monday 19 November 2018

غزل : خواب میرے

کبھی آؤ تم میرے روبرو اور آکے پھر یہ گلا کرو
کبھی ضد کرو، کبھی منّتیں اور یوں کہو کہ ملا کرو ۔۔

کبھی توڑ دو سبھی بندشیں ، کبھی چھوڑ دو یہ روایتیں
کبھی ہو کرم میرے حال پر ، میرے عشق کا یہ صلہ کرو۔

کبھی ہو جفاؤں کی انتہا ، کبھی سوز سے رہوں جاں بلب
کبھی ٹیس ہو کبھی ہو خلش، میرے زخم کو آبلہ کرو ۔۔

کبھی میرے ساتھ بھی معجزہ کہ میں تنہا ہو کے بھی نہ رہوں ،
میرا ساتھ دیکر سفر میں تم مجھ تنہا کو قافلہ کرو ۔۔۔۔

کبھی مجھ پہ ابرِ بہار ہو ، کبھی چاہتوں کی پھہار ہو ۔۔،
کبھی گلشنوں کو سنوار دو ، کبھی فرصتوں سے ملا کرو ۔۔

کبھی مبتلائے معاشقہ، کبھی آؤ کوچہء عاشقاں میرے دل کو جس سے قرار ہو کوئی ایسا بھی معاملہ کرو۔۔۔

کبھی دردِ دل سے بھی جا ملو ، کبھی سسکیوں کو سنا کرو ۔۔،
گر خوشیوں سے فرصت ملے، کبھی غم کا بھی حوصلہ کرو۔۔۔

کبھی راحتوں سے کرو درگزر ، کبھی ہو کسک تمہیں بےعزر ۔۔،
کبھی ترک ہو آرام بھی اور رنج کا فیصلہ کرو ۔۔۔۔۔

کبھی آنکھوں سے بھی نشہ کرو، کبھی خونِ دل کو پیا کرو۔۔،
کبھی لو مزہ تم سرور کا ، کبھی پی کے خود سے ملا کرو۔۔

کبھی یوں کہو کہ ہو جزا، کبھی بول دو کہ ہو سزا .. کبھی رحمتیں، کبھی زحمتیں، کبھی شبلی سے یہ گلہ کرو۔۔۔

از : شبلی فردوسی ۔

No comments:

Post a Comment